Visitor

Friday, February 28, 2014

سکندر





سکندر نے جب پانسہ پلٹتے دیکھا تو اپنے سپاہیوں کے درمیان میں آن کھڑا ہوا اور وہ بھی خود بھی زہنی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا۔ اور چاہتا تھا کہ لڑائی کسی صورت میں ختم ہو جائے، حتیٰ کہ اس نے فوجیوں کا جنگ روکنے کا حکم جاری کر دیا اور تیز آواز میں چلاتے ہوئے کہا " اے پورس، شہنشائے ہند، سنو مجھے تمہاری بے پناہ قوت اور طاقت کا بخوبی انداز ہو چکا ہے، علاوہ ازیں تمہاری حکمت عملی نے مجھے متاثر کیا ہے، میرا دل شکست خوردہ ہے، مجھے اپنی تھکن کا احساس ہے، معلوم نہیں ہم کہاں آ کر خوار ہو رہے ہیں۔ اب اگرچہ میں خود اپنی زندگی ختم کرنے کی کیفیت سے دوچار ہوں، تاہم میں اپنے سپاہیوں کو اس پر مجبور نہیں کرنا چاہتا، کیونکہ یونانی فوجوں کو ایسے حالات کا شکار کرنے کا ذمہ دار میں خود ہوں اور ایک بادشاہ کیلئے یہ مناسب نہیں کہ وہ وفادار فوج کی جان کی قیمت پر اپنی زندگی بچائے۔ آؤ ہم دونوں فوجوں کو لڑائی بند کرنے کا حکم دے کر خود مقابلہ کر لیں۔
جوزف بن گوریاں کی مطابق: اور جب سکندر کو اپنی فوج کی بے دلی کا علم ہوا تو اس نے شاہ ہند کو ایک پیغام بھیجا جس میں کہا گیا تھا "سنو پورس ہم دونوں کے درمیان لڑائی طول اختیار کر گئی ہے اور ہمارے اکثر سپاہی مایوسی کا شکار ہو چکے ہیں، آ، فوجوں کو پیچھے ہٹا کر اپنی تلوار سے دونوں جنگ کا فیصلہ کر لیں۔
فردوسی کے شاہنامہ میں لکھا ہے کہ جب لڑائی کی شدت انتہائی نکتے پر پہنچ گئی تو سکندر نے پورس کو یوں مخاطب کیا:
اے عظیم انسان
ہم دونوں کی فوجیں لڑائی سے تھک ہار گئی ہیں
جنگلی درندے (ہاتھی) انسانی کھوپڑیاں پیس رہے ہیں
گھوڑوں کے پاؤں سپاہیوں کی ہڈیاں توڑ رہے ہیں
ہم دونوں ہیرو، دلیر اور جوان
دونوں زہین، ہم پلہ اور زبردست
تو پھر سپاہیوں کا قتل عام کیوں
یا
پھر لڑائی کے بعد انکی زخمی زندگی کس کام کی

No comments:

Post a Comment