تاریخ ایک گھپلا ہے، یا پھر
تاریخ ایک چکر بازی ہے، یعنی برسراقتدار طبقہ اپنی من مرضی کے مطابق تاریخ
لکھواتا ہے اور تاریخ نویس کی بھی عافیت اور منفعت، اس بات میں پنہاں ہوتی
ہے کہ وہ اپنے آقاں کی خوشنودی کیلئے ان کی شان میں ڈفلیاں بجاتا رہے۔
سکندر اعظم بہر طور پر پنجابی پورس کے مقابلے میں مکمل فتح حاصل کرنے میں ناکام رہا تھا اور اس لئے اس نے بقول یونانی تاریخ دانوں کے جو سکندر کے ہمراہ تھے، پورس کو اس کی سلطنت واپس کر دی تھی۔ کیا وہ یہ جرت کر سکتے تھے؟ کہ پوری ایمانداری سے اقرار کرتے کہ سکندر اعظم کو چناب کے کناروں پر اتنی "پھینٹی" پڑی تھی کہ اس کے سپاہ نے نہ صرف بغاوت کر دی تھی بلکہ ہندوستان کے اندر جانے سے انکار کر دیا تھا کہ پہلے معرکے میں ہی یہ حشر ہوا ہے تو "اللہ جانے کیا ہو گا آگے" تو "چلو چلو یونان واپس چلو"۔
چنانچہ سکندر صاحب نے ٹیکسلا میں واپسی کا بگل بجایا، آدھی فوج کو کشتیوں میں واپس بھیجا اور بقیہ نصف کے ہمراہ وہ خشکی کے راستے بابل پہنچے اور ایک روایت کے مطابق ملتان کے ملی جاٹوں کے ہاتھوں زخمی ہونے کے بعد وہاں انتقال فرما گئے۔ "ہم شائد دنیا کی واحد قوم ہیں جو حملہ آوروں کی یادگاریں تعمیر کرتے ہیں اور جو اس سرزمین کی جری لوگ تھے، جنہوں نے ان کا بے جگری سے مقابلہ کیا، انہیں فراموش کر دیتے ہیں، صرف اس لئے کہ پورس ایک ہندو جاٹ تھا.پورس" ہوگزرے ہیں۔ اب اگر ان زمانوں میں ابھی برصغیر میں اسلام کی روشنی نہیں پھیلی تھی، تو یہاں کے مقامی لوگوں نے ہندو یا بدھ ہی ہونا تھا، مسلمان کیسے ہو سکتے تھے؟ لیکن ہم صرف اس لئے سکندر اعظم کو سرآنکھوں پر بٹھاتے ہیں ایک تو ہم اس کے نام کو اسلامی سمجھتے تھے اور دوسرا یہ کہ اس نے ایک ہندو راجے کو، بقول یونانی تاریخ دانوں کے شکست دی تھی۔
میں تو تاریخ کا ایک سرسری سا طالب علم ہوں لیکن محمد حنیف رامے اور اعتزاز احسن کی تحقیق کے مطابق سکندر اعظم کو پورس کے ہاتھوں شکست ہوئی تھی، وہ جو مقدونیہ سے ہندوستان فتح کرنے کی نیت سے نکلا تھا (ان دنوں ہندوستان کو فتح کرنے کا بڑا رواج تھا) پہلے معرکے کے بعد اگر وہ فتح یاب ہوا تھا تو واپسی کی راہ کیوں اختیار کر لی تھی
سکندر اعظم بہر طور پر پنجابی پورس کے مقابلے میں مکمل فتح حاصل کرنے میں ناکام رہا تھا اور اس لئے اس نے بقول یونانی تاریخ دانوں کے جو سکندر کے ہمراہ تھے، پورس کو اس کی سلطنت واپس کر دی تھی۔ کیا وہ یہ جرت کر سکتے تھے؟ کہ پوری ایمانداری سے اقرار کرتے کہ سکندر اعظم کو چناب کے کناروں پر اتنی "پھینٹی" پڑی تھی کہ اس کے سپاہ نے نہ صرف بغاوت کر دی تھی بلکہ ہندوستان کے اندر جانے سے انکار کر دیا تھا کہ پہلے معرکے میں ہی یہ حشر ہوا ہے تو "اللہ جانے کیا ہو گا آگے" تو "چلو چلو یونان واپس چلو"۔
چنانچہ سکندر صاحب نے ٹیکسلا میں واپسی کا بگل بجایا، آدھی فوج کو کشتیوں میں واپس بھیجا اور بقیہ نصف کے ہمراہ وہ خشکی کے راستے بابل پہنچے اور ایک روایت کے مطابق ملتان کے ملی جاٹوں کے ہاتھوں زخمی ہونے کے بعد وہاں انتقال فرما گئے۔ "ہم شائد دنیا کی واحد قوم ہیں جو حملہ آوروں کی یادگاریں تعمیر کرتے ہیں اور جو اس سرزمین کی جری لوگ تھے، جنہوں نے ان کا بے جگری سے مقابلہ کیا، انہیں فراموش کر دیتے ہیں، صرف اس لئے کہ پورس ایک ہندو جاٹ تھا.پورس" ہوگزرے ہیں۔ اب اگر ان زمانوں میں ابھی برصغیر میں اسلام کی روشنی نہیں پھیلی تھی، تو یہاں کے مقامی لوگوں نے ہندو یا بدھ ہی ہونا تھا، مسلمان کیسے ہو سکتے تھے؟ لیکن ہم صرف اس لئے سکندر اعظم کو سرآنکھوں پر بٹھاتے ہیں ایک تو ہم اس کے نام کو اسلامی سمجھتے تھے اور دوسرا یہ کہ اس نے ایک ہندو راجے کو، بقول یونانی تاریخ دانوں کے شکست دی تھی۔
میں تو تاریخ کا ایک سرسری سا طالب علم ہوں لیکن محمد حنیف رامے اور اعتزاز احسن کی تحقیق کے مطابق سکندر اعظم کو پورس کے ہاتھوں شکست ہوئی تھی، وہ جو مقدونیہ سے ہندوستان فتح کرنے کی نیت سے نکلا تھا (ان دنوں ہندوستان کو فتح کرنے کا بڑا رواج تھا) پہلے معرکے کے بعد اگر وہ فتح یاب ہوا تھا تو واپسی کی راہ کیوں اختیار کر لی تھی
No comments:
Post a Comment